ساقی
مِری مستی میں بھی اب ہوش ہی کا طور ہے ساقی
تِرے ساغر میں یہ صہبا نہیں کچھ اور ہے ساقی
بھڑکتی جا رہی ہے دم بدم اک آگ سی دل میں
یہ کیسے جام ہیں ساقی یہ کیسا دور ہے ساقی
وہ شے دے جس سے نیند آ جائے عقل فتنہ پرور کو
کہیں اک رِند اور واماندۂ افکارِ تنہائی
کہیں محفل کی محفل طور سے بے طور ہے ساقی
جوانی اور یوں گھر جائے طوفان حوادث میں
خدا رکھے ابھی تو بے خودی کا دور ہے ساقی
چھلکتی ہے جو تیرے جام سے اس مے کا کیا کہنا
تِرے شاداب ہونٹوں کی مگر کچھ اور ہے ساقی
مجھے پینے دے پینے دے کہ تیرے جام لعلیں میں
ابھی کچھ اور ہے کچھ اور ہے کچھ اور ہے ساقی
اسرارالحق مجاز
(مجاز لکھنوی)
(مجاز لکھنوی)
No comments:
Post a Comment