Wednesday, 2 September 2020

آئینہ رقص میں حسرت کی شناسائی کا

کائنات ذات کا مسافر

آئینہ رقص میں حسرت کی شناسائی کا
کتنے چپ چاپ خرابوں میں لیے جاتا ہے
ہر طرف نرخ زدہ چہروں کی آوازیں ہیں
میری آواز کہاں تھی میری آواز کہاں
مدفنِ وقت سے کب کوئی صدا آئی ہے
ایک لمحہ وہی لمحہ مِری تنہائی کا
زخم پر زخم مِرے دل کو دئیے جاتا ہے
پھول کے ہاتھ میں ہے رات کے ماتم کا چراغ
کبھی بجھتا کبھی جلتا ہے، سلگتا ہے کبھی
سانس سے جسم کا ناطہ مِری رسوائی ہے
ہمسفر کون ہوا لالۂ صحرائی کا؟
پردۂ راز ازل چاک کیے جاتا ہے
سر ہتھیلی پہ سجاۓ ہوۓ چلتے رہنا
زندہ رہنے کے لیے رسم رہے گی کب تک
درد دریا ہے وہی درد کی گہرائی ہے

احمد ظفر

No comments:

Post a Comment