کائنات ذات کا مسافر
آئینہ رقص میں حسرت کی شناسائی کا
کتنے چپ چاپ خرابوں میں لیے جاتا ہے
ہر طرف نرخ زدہ چہروں کی آوازیں ہیں
میری آواز کہاں تھی میری آواز کہاں
ایک لمحہ وہی لمحہ مِری تنہائی کا
زخم پر زخم مِرے دل کو دئیے جاتا ہے
پھول کے ہاتھ میں ہے رات کے ماتم کا چراغ
کبھی بجھتا کبھی جلتا ہے، سلگتا ہے کبھی
سانس سے جسم کا ناطہ مِری رسوائی ہے
ہمسفر کون ہوا لالۂ صحرائی کا؟
پردۂ راز ازل چاک کیے جاتا ہے
سر ہتھیلی پہ سجاۓ ہوۓ چلتے رہنا
زندہ رہنے کے لیے رسم رہے گی کب تک
درد دریا ہے وہی درد کی گہرائی ہے
احمد ظفر
No comments:
Post a Comment