Monday, 2 November 2020

اک سانولی سی لڑکی

 اک سانولی سی لڑکی، ایک باؤلی سی لڑکی

کچی ہے عمر جس کی

کچھ دن سے جانے کس کی

چاہت میں کهو گئی ہے

دیوانی ہو گئی ہے

کیا جانے خواب کس کا

آنکهوں میں ہے سنبهالے

کچھ سوچتی ہے شب بهر

خود پر لحاف ڈالے

گهر والے سوچتے ہیں

جلدی سے سو گئی ہے

اک سانولی سی لڑکی، اک باؤلی سی لڑکی


سدھ بدھ ہے اس کو خود کی

سدھ بدھ نہیں ہے گهر

ہر دن بدل رہی ہے کرتی نئے کلر کی

بے رنگ اوڑهنی تهی، رنگین ہو گئی ہے

اک سانولی سی لڑکی، اک باؤلی سی لڑکی


نانی سے اب کہانی، سنتی کبهی نہیں ہے

گڑیوں سے، تتلیوں سے، اب دوستی نہیں ہے

نازک کلی بهی انجم، گلنار ہو گئی ہے

اک سانولی سی لڑکی

اک باؤلی سی لڑکی


انجم رہبر

No comments:

Post a Comment