Monday, 2 November 2020

خلاف شوق و طلب یونہی جا نہیں رہے ہم

 خلافِ شوق و طلب یونہی جا نہیں رہے ہم

یہ پھل ہی اتنا حسیں ہے کہ کھا نہیں رہے ہم

اب اس سے اور محبت بھی کتنی سچی ہو؟

خیالِ کارِ ہوس بھی چھپا نہیں رہے ہم

ہمارے جسم کو لاحق ہے شرکِ لمس کا خوف

سو اپنا تکیہ گلے سے لگا نہیں رہے ہم

غزل میں اس لیے لائے نہیں تِری آنکھیں

ہمیں لگا یہ قوافی نبھا نہیں رہے ہم

کوئی خوشی ہے جو رنجیدہ کر رہی ہے ہمیں

تمہارے غم میں تو پھولے سما نہیں رہے ہم


پارس مزاری

No comments:

Post a Comment