Sunday, 1 November 2020

لفظ کی چھاؤں میں

 لفظ کی چھاؤں میں


لفظ کی چھاؤں میں

نیم کی پتیوں کا سفر تلخ سا

سیلنی جسم میں روح بے چین بھی

شہریت کے تقاضے جو ٹوٹے کبھی

زندگی کے عمل میں بھی شک آ پڑا

ٹوٹ کر کس طرح جڑ گئی چاندنی

دھوپ لمحوں کے چہروں سے گرتے ہوئی خاک میں جا ملی

سر جھکائے ہوئے کون سڑکوں پہ یوں تجھ کو ڈھونڈا کرے

ہمکلامی کی عزت کا بادل سدا سر پہ سایہ فگن

جب تیری خامشی کے معنی کے ہونٹوں سے ٹپکے ہوئے

دودھ کے چند قطرے سمندر بنے

بادبانوں کے آغوش کھولے ہوئے کشتیاں چل پڑیں

تشنگی کے جزیروں پہ سایہ کہاں

صبح کا موم پگھلا تو خوابوں کے دل بجھ گئے

بجھ گئی رات بھی

بجھ گئی لفظ کے ہاتھوں کی بات بھی

لفظ میدان میں سرنگوں رہ گئے

سنگساری کی لذت لہو بن گئی

کون پوشیدہ جذبوں کی چلمن بنے

لفظ کی چھاؤں میں کوئی سورج ڈھلے


عادل منصوری

No comments:

Post a Comment