Sunday, 1 November 2020

آباد ویرانیاں

 آباد ویرانیاں


وہ دستکیں

جو تمہاری پوروں نے ان دروں میں انڈیل دی ہیں

وہ آج بھی

ان چوب ریشوں میں جاگتی ہیں

تمہارے قدموں کی چاپ

چپ ساعتوں میں بھی

ایک ایک ذرے میں بولتی ہے

تمہارے لہجے کے میٹھے گھاؤ سے

آج بھی

میرے گھر کا کڑیل چٹان سینہ چھنا ہوا ہے

کوئی نہ جانے

کہ ہنستے بستے گھروں کے اندر بھی

گھر بنے ہیں

جہاں مقفل ہیں بیتے لمحے

صبیح دن

اور ملیح راتیں

یہ واقعہ ہے

کہ جو علاقہ تمہارے جلووں کی زد میں آیا

اجڑ گیا ہے

اجاڑ آنگن تمہاری پہچان ہیں

یہاں

لوگ خود کو کیسے شناختیں گے


وحید احمد

No comments:

Post a Comment