Saturday, 7 November 2020

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

 غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

حسن تھا تیرا بہت عالم فریب

خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک

قطرۂ خوں تھا، مژہ پر جم رہا

سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ

اس میں مجنوں کا ولے ماتم رہا

جامۂ احرامِ زاہد پر نہ جا

تھا حرم میں لیک نا محرم رہا

زلفیں کھولے تُو تو ٹک آیا نظر

عمر بھر یاں کامِ دل برہم رہا

اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے

اپنے حق میں آبِ حیواں سَم رہا

میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی

ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

صبحِ پیری شام ہونے آئی میر

تُو نہ جیتا یاں بہت دن کم رہا


میر تقی میر

No comments:

Post a Comment