تِرے سلوکِ تغافل سے ہو کے سودائی
چلا ہوں میں تو کچھ آگے چلی ہے رسوائی
نیا نیا ہے ابھی جذبۂ خود آرائی
خدا کرے کہ نہ آئے خیالِ یکتائی
طبیعتوں میں بڑا اختلاف ہوتا ہے
مجھے تو عرضِ تمنا پہ شرم سی آئی
حیاتِ عشق کے یہ پیچ و خم، نشیب و فراز
انہیں کا نام ہے شاید کسی کی انگڑائی
جو آج ذکر چلا آستیں کے سانپوں کا
تو مجھ کو اپنے کئی دوستوں کی یاد آئی
تمہاری یاد کو رہ رہ کے گھیر لاتی ہے
مہ و نجوم کی تابش، گلوں کی رعنائی
طلب کی موت سمجھئے رہِ طلب میں قیام
بڑا غلط ہے تقاضائے آبلہ پائی
تمام عمر میں پہنچا ہوں اس نتیجہ پر
نشاطِ بزم سے بہتر ہے دردِ تنہائی
وہ ابتدائے محبت کی گفتگو محشر
بجا رہا ہو کوئی دُور جیسے شہنائی
محشر عنایتی
No comments:
Post a Comment