نکلی ہے فال اہلِ خرد کی کتاب سے
اک جام قیمتی ہے جہانِ شراب سے
کرتا نہ بھول کر بھی گستاخئ سوال
ہوتا جو آشنا میں تمہارے جواب سے
کرتے ہیں موج مے سے سکونِ جگر کشید
شبنم نچوڑتے ہیں رگِ آفتاب سے
زلفیں بکھیر دے کہ زمانے کو علم ہو
ظلمت حسین تر ہے شبِ مہتاب سے
اڑتی ہے سطح جام سے یوں مے کی چاندنی
نغمے کی لہر جیسے رواں ہو رباب سے
دیکھا ہے جب سے ان کی نگاہوں کو اے عدم
مانوس ہو گئی ہے طبیعت شراب سے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment