مِری آنکھوں کی ساری ان کہی پہچان لو گے
تمہیں بیٹی عطا ہو گی تو سب جان لو گے
سنہری نظم کالی آستیں میں ٹانک دی ہے
اب اس ٹوٹے بٹن کا اور کیا تاوان لو گے
مجھے معلوم ہے تکیے کے نیچے کیا پڑا ہے
مجھے ڈر ہے کسی دن تم مجھی پر تان لو گے
بس ایک چھیدوں بھری دانش ہے اور یہ خوش گمانی
اسی چھلنی میں تم ساری خدائی چھان لو گے
ستائش کے بھسلواں موڑ میں کچھ حرف زادے
تمہیں اپنا خدا کہہ دیں تو کیا مان لو گے؟
ہماری راہ چل نکلے ہو لیکن یہ نہ سمجھ
کہ اتنی سہولت سے ہمیں تم آن لو گے
حمیدہ شاہین
No comments:
Post a Comment