Monday, 2 November 2020

ہار کیا ایک پھول بھی نہیں ہے

 ہار کیا ایک پھول بھی نہیں ہے

اس سے ملنا زیادتی نہیں ہے؟

اس نے کہنا نہیں گلے لگ، اور

جبر مجھ کو پسند ہی نہیں ہے

ہجر کی رات کٹ نہیں رہی دوست

اور یہ رات آخری نہیں ہے

وہ گلے سے نہیں لگاتا مجھے

چاہے جانے کی بھی خوشی نہیں ہے

اس سے اونچے پہاڑ سر کیے ہیں

جیت میرے لیے نئی نہیں ہے

دل کو خاطر میں وہ نہیں لاتا

پھول دل سے تو قیمتی نہیں ہے

آج کل اپنا دھیان کیا رکھنا

اب تو اس کا خیال بھی نہیں ہے


نادر عریض

No comments:

Post a Comment