Saturday, 7 November 2020

بہت قرینے کی زندگی تھی عجب قیامت میں آ بسا ہوں

 بہت قرینے کی زندگی تھی عجب قیامت میں آ بسا ہوں

سکون کی صبح چاہتا تھا سو شامِ وحشت میں آ بسا ہوں

میں اپنی انگشت کاٹتا تھا کہ بیچ میں نیند آ نہ جائے

اگرچہ سب خواب کا سفر تھا مگر حقیقت میں آ بسا ہوں

وصالِ فردا کی جستجو میں نشاطِ امروز گھٹ رہا ہے

یہ کس طلب میں گھرا ہوا ہوں یہ کس اذیت میں آ بسا ہوں

یہاں تو بے فرصتی کے ہاتھوں وہ پائمالی ہوئی ہے میری

کہ جس سے ملنے کی آرزو تھی اسی کی فرقت میں آ بسا ہوں

کہاں کی دنیا کہاں کی سانسیں، کہ سب فریبِ حواس نکلا

جزا کی مدت سمجھ رہا تھا، سزا کی مہلت میں آ بسا ہوں

سوال کرنے کے حوصلے سے جواب دینے کے فیصلے تک

جو وقفۂ صبر آ گیا تھا، اسی کی لذت میں آ بسا ہوں

یہ ان سے کہنا جو میری چپ سے ہزار باتیں بنا رہے تھے

میں اپنے شعلے کو پا چکا ہوں میں اپنی شدت میں آ بسا ہوں


عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment