Sunday, 22 November 2020

یہاں سے دور کہیں اور بس گیا تھا میں

 یہاں سے دور کہیں اور بس گیا تھا میں

جہاں تلک تھی مری دسترس گیا تھا میں

ہزار سال کی اک نیند لے کے جاگا ہوں

کہیں غیاب کے لمحے میں پھنس گیا تھا میں

ضعیف طاق اچانک گرا تو سال کھلے

مجھے لگا تھا کہ پچھلے برس گیا تھا میں

فلک لپیٹ لیا دستِ  بے نیازی نے

چہار سمت سے رسیاں بھی کس گیا تھا میں

کنول کے پھول یقیناً وہاں کھلے ہوں گے

اداس قبر پہ اتنا تو ہنس گیا تھا میں

یہ شش جہات بھی زندان سے زیادہ نہیں

ادھر سے گھوم کے سوئے قفس گیا تھا میں

مرے حواس پہ چپکی ہے اس بدن کی باس

بھڑکتی آگ پہ اک دن برس گیا تھا میں

جہانِ خواب کا منظر کھلا ہے اب راشد

یقین جان کہ سچ کو ترس گیا تھا میں


راشد امام

No comments:

Post a Comment