یہاں سے دور کہیں اور بس گیا تھا میں
جہاں تلک تھی مری دسترس گیا تھا میں
ہزار سال کی اک نیند لے کے جاگا ہوں
کہیں غیاب کے لمحے میں پھنس گیا تھا میں
ضعیف طاق اچانک گرا تو سال کھلے
مجھے لگا تھا کہ پچھلے برس گیا تھا میں
فلک لپیٹ لیا دستِ بے نیازی نے
چہار سمت سے رسیاں بھی کس گیا تھا میں
کنول کے پھول یقیناً وہاں کھلے ہوں گے
اداس قبر پہ اتنا تو ہنس گیا تھا میں
یہ شش جہات بھی زندان سے زیادہ نہیں
ادھر سے گھوم کے سوئے قفس گیا تھا میں
مرے حواس پہ چپکی ہے اس بدن کی باس
بھڑکتی آگ پہ اک دن برس گیا تھا میں
جہانِ خواب کا منظر کھلا ہے اب راشد
یقین جان کہ سچ کو ترس گیا تھا میں
راشد امام
No comments:
Post a Comment