تیرے جانے کی قیامت کا اثر باقی ہے
گھر کہاں باقی ہے اک اجڑا نگر باقی ہے
تیری فرقت نے میرے خواب تہِ خاک کیے
میرے لٹنے کی کہاں کوئی کسر باقی ہے
بعد تیرے نہ رہی کوئی خوشی آنگن میں
یاد باقی ہے تیری، کچھ بھی اگر باقی ہے
خاک اڑتی ہے سرِ شام میری ہستی کی
غم کے صحرا میں بس اک دیدۂ تر باقی ہے
رات دن ڈھونڈتا پھرتا ہوں اسے راہوں میں
چارہ گر! یہ تو بتا کتنا سفر باقی ہے؟
بعد تیرے جو متاع ہے، وہ ہے اتنی سرمد
ہچکیاں تھوڑی سی اور اذنِ سفر باقی ہے
شاہنواز سرمد
No comments:
Post a Comment