اوپر سے تو گورے گورے پر اندر سے کالے لوگ
خوب منافق ہوتے ہیں یہ ہنس کر ملنے والے لوگ
صبح ہوئی تو مانگتے دیکھا روشنیوں کی بھیک انہیں
بانٹ رہے تھے یارو جو کل ساری رات اجالے لوگ
میری اپنی جیب کٹی تو مجھ کو یہ معلوم ہوا
کیوں بن جاتے ہیں اکثر معصوم سے بھولے بھالے لوگ
کوئی تو مجھ کو بتلائے حرص ہے یا یہ غربت ہے
چھین رہے ہیں اک دوجے کے ہاتھ سے آج نوالے لوگ
ظلم کا سورج کب ڈوبے گا کہ ہر روز ہی ملتے ہیں
خون میں لت پت کوڑے کرکٹ کی ڈھیری پہ ڈالے
یوں بھی قتل پہ قتل یہاں پر ہوتے رہتے ہیں دن رات
دیکھ کے ظلم لگا لیتے ہیں لب پر چپ کے تالے لوگ
ان کی چکنی چپڑی باتوں میں تم بالکل مت آنا
جب بھی باقر سامنے آئیں چاند سے چہروں والے لوگ
مرید باقر انصاری
No comments:
Post a Comment