Monday, 2 November 2020

آتما تھک چکی ہے

 آتما تھک چکی ہے


بہت تھک چکا ہوں

یہی خود کو لکھنا اذیت کا سہنا

محبت کی نظمیں مکمل نہ ہونی

ہوا کا کوئی بھید مجھ پر نہ کھُلنا

میں کیا کر رہا ہوں

خبر بھی نہیں ہے کسے لکھ رہا ہوں

بہت تھک چکا ہوں

وہی جھیل اور جھیل کا اِک کنارا

وہ قصہ ہمارا

وہی نامکمل کہانی بھلائے نہ بھولے

وہی چند پتھر، لرزتے ہوئے عکس

وہی جھیل کا رقص

وہی کیفیت تنگ ہونے لگا ہوں

بہت تھک چکا ہوں

بدن میں تھکاوٹ نہیں پر مِری آتما تھک چکی ہے

مسافت بھی جیسے بہت بڑھ چکی ہے

تذبذب ہے سکتہ ہے سانسوں کی لے ٹوٹتی جا رہی ہے

کوئی ساتھ ہے چھوٹتا جا رہا ہے

مِرے ہاتھ پاؤں بھی شل ہو رہے ہیں

میں پانی میں اب ڈوبتا جا رہا ہوں

بہت تھک چکا ہوں


 ندیم بھابھہ

No comments:

Post a Comment