Friday 28 May 2021

حق ہے تجھے جسے بھی تو چاہے غلط سمجھ

 حق ہے تجھے جسے بھی تُو چاہے غلط سمجھ

کم تر مگر کسی کو مِرے یار مت سمجھ

چلتا ہے کاروبارِِ وفا اعتبار پر

جو کہہ دیا گیا ہے اسے دستخط سمجھ

پسپا ہوئے محاذ سے ہم جان بُوجھ کر

یہ بُزدلی نہیں ہے اسے مصلحت سمجھ

مروا دیا ضمیر نے کہہ کہہ کے یہ مجھے

کہہ ٹھیک کو تُو ٹھیک، غلط کو غلط سمجھ

سر کی گرفت ہی سے تو گرتا نہیں بدن

دیوار خود پہ چھت کو کبھی بار مت سمجھ

تعریف زندگی کی اگر چاہیے تجھے

آبِ رواں پہ بلبلے کے خال و خط سمجھ

پاؤں کی زد پہ آئے تو اطلاع ہو تجھے

اس فرشِ پائمال کی تکلیف چھت سمجھ

دیکھا تو ہر وجود تھا دراصل بے وجود

اب اپنے اس وجود کی خود منزلت سمجھ

کیوں دے نہیں رہا تُو فریبِ نظر کو دوش

کس نے کہا تھا آسماں کو اپنی چھت سمجھ

اندر خیال و خواب کے آباد ہیں جہاں

سو اس بدن کو ایک نہیں اَن گنت سمجھ

حالِ سفر تمام بتائے گا یہ حبیب

نقشِ کفِ قدم کو بھی اک رسمِ خط سمجھ


حبیب احمد

No comments:

Post a Comment