الاؤ
دُھند کی اوڑھنی کو سرکاتی
دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی ہوئی
گاہے رُکتی ہے، گاہے چلتی ہے
رات اپنے کسی سفر پر ہے
سُوکھی، گیلی سُلگتی سانسوں سے
ناگہاں ایک شعلہ اُٹھتا ہے
جیسے وہ شب کے شامیانے میں
کوئی گہرا شگاف ڈالے گا
شعلگی نارسائی کی سوتن
بُجھتے بُجھتے بھڑکنے لگتی ہے
سرد مہری کی جامنی چادر
خواب کے تن پہ کسمساتی ہے
آرزو، بانسری کی مدھم لَے
دل پہ چُپکے سے پاؤں دھرتی ہے
دفعتاً دھیان کے جھروکے سے
ایک کوندا لپک دکھاتا ہے
کاش یہ شبنمی خُمار سی آنچ
دُھند کی آنکھ نُور سے بھر دے
رات کی عُرفیت بدل جائے
پھُول جھڑنے لگیں ستاروں سے
آگ ٹپکے رگِ محبت سے
وقفے وقفے سے لکڑیاں ڈالیں
اس الاؤ میں آشنائی کی
اور پھر دل کی آنکھ سے دونوں
آج اک دوسرے کا چہرہ پڑھیں
شازیہ مفتی
No comments:
Post a Comment