خدا مِری نظم کیوں پڑھے گا
میں اپنی تخلیق کا شجر ہوں
شجر، جو مجھ سے قدیم تر ہے
عظیم تر ہے
یہ وہ نہیں ہے
بہار کی سبز رو ہوائیں
خزاں کی بدشکل، زرد اور تندخو ہوائیں
مِری ادائیں
یہ چہچہے
یہ پرندگاں کے مدھر مدھر گیت
سب مِری گمشدہ صدائیں
یہ گھونسلے میرے رتجگے ہیں
یہ ڈال میں ہوں
یہ سبز پتوں کی شال میں ہوں
میں خود ہی اپنے لیے ہوں سایا
میں خود ہی اپنا، میں خود پرایا
نہ میرا ثانی، نہ میرا جایا
میں خود ہی خود ہوں پلٹ سکے کون میری کایا
میں اپنا آسیب خود ہوں
خود اپنا خشک و تر ہوں
میں خود غذا ہوں
میں خود ثمر ہوں
یہ شاخ پر جو لہک رہی ہے
یہ نظم میں ہوں
جو پتا پتا چہک رہی ہے
یہ نظم میں ہوں
مگر یہ دستور ناروا ہے
جو خود اُگا ہے وہ خود جھڑے گا
خدا مِری نظم کیوں پڑھے گا
دانیال عزیز
No comments:
Post a Comment