جذبوں کی ہر ایک کلی اندھی نکلی
اور محبت اس سے بھی پگلی نکلی
میں بھی توڑ نہ پائی جھوٹی رسمیں
میں بھی بس اک معمولی لڑکی نکلی
تم مجھ سے نفرت کیسے کر پاؤ گے
میں تو اپنے جھوٹ میں بھی سچی نکلی
وہ گھر جو اُجلا اُجلا سا لگتا تھا
جھاڑا پونچھا تو کتنی مٹی نکلی
سوچا تھا اس سے ہر بات چھُپاؤں گی
میں بھی وعدوں کی کتنی کچی نکلی
جو اپنے ہاتھوں سے پھاڑ کے پھینکی تھی
دل میں اِک تصویر وہی رکھی نکلی
فرحت زاہد
No comments:
Post a Comment