عجب عجیب غمِ احتمال رکھتے ہوئے
کسی کا خواب، کسی کا خیال رکھتے ہوئے
انا بھی کوہِ گراں کی طرح ہے پھر درپیش
تِرے حضور، طلب کا سوال رکھتے ہوئے
کوئی خزینۂ راحت نہ اپنے کام آیا
درازِ دل میں ذرا سا ملال رکھتے ہوئے
میں آفتاب ہوں لیکن اک اعتماد کے ساتھ
چمک رہی ہوں میں رنجِ زوال رکھتے ہوئے
تمام عمر تو رکھنی نہیں یہ رنجشِ دل
یہ سوچ لیتا وہ شیشے میں بال رکھتے ہوئے
شاہدہ لطیف
No comments:
Post a Comment