سرد سمے کی دھوپ
کُرۂ ارض پر
عدم توازن بکھرا پڑا ہے
حدودِ جہاں کی معیت میں
آنکھیں برف ہو رہی ہیں
مقدس صحیفوں کی خوشبو
دانش کے حکمت آموز اوراق میں لپٹی ہے
دعاؤں کے پھُول مُرجھائے ہوئے ہیں
فلک پر سچ کا پرچم اُٹھائے
فرشتوں نے جلسۂ عام کیا ہے
جہان عالمِ تغیر کی رو میں بہا جا رہا ہے
سُورج کی کرنیں دیکھنے والے چلے آ رہے ہیں
امجد بابر
No comments:
Post a Comment