شاعر
وہی اک تصور جاناں کہیں
وہی اک جزیرہ خیال کا
وہی پانیوں پہ ہر ایک سمت ہے برف سی
وہی بے بسی ہے نہاں کہیں
کوئی جسم ہو جو عیاں کرے
یہ جو تاب ہے مِرے جسم میں
یہ لہو میں دوڑتی سرد سانپ سی روشنی
کبھی تیرگی کی نہایتوں میں بیاں کرے
ابھی اک سوال ہے چار سُو یہ فریب خوردہ معاشرہ
میں سمجھ رہا ہوں حقیقتیں جنہیں تُو نے دل پہ ہے لے لیا
مجھے یہ بتا انہی گرم سانسوں کی تان میں
کہاں گامزن ہے یہ معاشقہ؟
آصف محمود
No comments:
Post a Comment