Tuesday 25 May 2021

وہی اک تصور جاناں کہیں وہی اک جزیرہ خیال کا

 شاعر


وہی اک تصور جاناں کہیں

وہی اک جزیرہ خیال کا

وہی پانیوں پہ ہر ایک سمت ہے برف سی

وہی بے بسی ہے نہاں کہیں

کوئی جسم ہو جو عیاں کرے

یہ جو تاب ہے مِرے جسم میں

یہ لہو میں دوڑتی سرد سانپ سی روشنی

کبھی تیرگی کی نہایتوں میں بیاں کرے

ابھی اک سوال ہے چار سُو یہ فریب خوردہ معاشرہ

میں سمجھ رہا ہوں حقیقتیں جنہیں تُو نے دل پہ ہے لے لیا

مجھے یہ بتا انہی گرم سانسوں کی تان میں

کہاں گامزن ہے یہ معاشقہ؟


آصف محمود

No comments:

Post a Comment