تُو نے جب بھی آنکھ ملائی
دیدہ و دل پر آفت آئی
یہ سناٹا یہ تنہائی
لیکن تیری یاد تو آئی
دیر و حرم میں جا بیٹھے ہیں
دُنیا جن کو راس نہ آئی
ٹُوٹ گئیں ساری زنجیریں
زُلف ترے رُخ پر لہرائی
منزل دُور تھی لیکن ہم نے
ایک قدم میں ٹھوکر کھائی
تُجھ کو مبارک پھول اور کلیاں
میرا حصہ آبلہ پائی
چھانی ہم نے نگری نگری
صحرا صحرا خاک اُڑائی
کون مجید اس بھید کو جانے
کیا شے کھوئی کیا شے پائی
مجید لاہوری
No comments:
Post a Comment