سہہ لیا آستیں میں لگتی ہوئی گھات کا دُکھ
کیسے سہہ لیں مگر اس طرح ملی مات کا دکھ
جو بھی صحراؤں میں رہتے ہیں وہی جانتے ہیں
کس طرح توڑ کے رکھ دیتا ہے برسات کا دکھ
بوجھ اک دائمی فرقت کا لیے سینے پر
جھٹپٹے نے بھی سہا ساتھ میں دن رات کا دکھ
وہ جو پردیس میں بیٹھا ہے اسے کیا معلوم
راہ تکتی ہوئی آنکھوں سے ملاقات کا دکھ
زندگی یونہی سسکتی رہی چاروں جانب
اور کھاتا ہی گیا سب کو یہی ذات کا دکھ
اس تعلق کی روانی تھی ہواؤں سی مگر
لے کے ڈوبا اسے اک رنجشِ بے بات کا دکھ
تلخ لہجہ تو گراں تھا، ہے مگر اس سے سوا
سرد آنکھوں سے کہی طنز بھری بات کا دکھ
صائمہ اسحاق
No comments:
Post a Comment