Tuesday 25 May 2021

تو کسی راستے کا مسافر رہے تیری ایک ایک ٹھوکر اٹھا لاؤں گی

 تُو کسی راستے کا مسافر رہے تیری ایک ایک ٹھوکر اٹھا لاؤں گی

اپنی بے چین پلکوں سے چن چن کے میں تیرے رستے کے پتھر اٹھا لاؤں گی

میں ورق پیار کا موڑ سکتی نہیں، زندگی! میں تجھے چھوڑ سکتی نہیں

تُو اگر میرے گھر تک نہیں آئے گا میں تیرے پاس ہی گھر اٹھا لاؤں گی

آنسوؤں کا یہ موسم چلا جائے گا، میرے لب پر تبسم بھی آ جائے گا

مجھ کو دل کی زمیں سے تم آواز دو آسماں اپنے سر پہ اٹھا لاؤں گی

میرے ہر خواب کی تُو ہی تعبیر ہے، تُو ہی میرے خیالوں کی تصویر ہے

تیری آنکھوں سے دیکھوں گی میں زندگی تیری پلکوں سے منظر اٹھا لاؤں گی

یہ زمانہ ہے صحرا صفت ہم نشیں چند قطرے بھی اس سے نہ مل پائیں گے

دیکھ تو مجھ سے کہہ کر کسی روز تُو تیری خاطر سمندر اٹھا لاؤں گی

تیرے ماتھے کی اک اک شکن کی قسم میں عیادت کو رسماً نہیں آئی ہوں

میرے بیمار! تیری دوا کے لیے اپنا اک ایک زیور اٹھا لاؤں گی


شبینہ ادیب کانپوری

No comments:

Post a Comment