جب چاہا اقرار کیا،۔ جب چاہا انکار کیا
دیکھو ہم نے خود ہی سے کیسا انوکھا پیار کیا
ایسا انوکھا ایسا تیکھا جس کو کوئی سہہ نہ سکے
ہم سمجھے پتی پتی کو ہم نے ہی سرشار کیا
روپ انوکھے میرے ہیں اور روپ یہ تُو نے دیکھے ہیں
میں نے چاہا کر بھی دکھایا یا جنگل کو گلزار کیا
درد تو ہوتا رہتا ہے درد کے دن ہی پیارے ہیں
جیسے تیز چھری کو ہم نے رہ رہ کر پھر دھار کیا
کالے چہرے کالی خوشبو سب کو ہم نے دیکھا ہے
اپنی آنکھوں سے ان کو شرمندہ ہر بار کیا
روتے دل ہنستے چہروں کو کوئی بھی نہ دیکھ سکا
آنسو پی لینے کا وعدہ ہاں سب نے ہر بار کیا
کہنے جیسی بات نہیں ہے بات تو بالکل سادہ ہے
دل ہی پر قربان ہوئے اور دل ہی کو بیمار کیا
شیشے ٹوٹے یا دل ٹوٹے خشک لبوں پر موت لیے
جو کوئی بھی کر نہ سکا، وہ ہم نے آخر کار کیا
ناز تیرے زخمی ہاتھوں نے جو بھی کیا اچھا ہی کیا
تُو نے سب کی مانگ سجائی ہر اک کا سنگار کیا
ماہ جبین ناز
مینا کماری ناز
No comments:
Post a Comment