عید ملنے کا اک بہانہ ہوا
کاٹ کر جیب وہ روانہ ہوا
لیڈری میں بھلا ہوا ان کا
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
ایک مینڈھے پہ ہی نہیں موقوف
تجھ پہ قربان اک زمانہ ہوا
یہ عوامی بنا رہے ہیں لیگ
کیا مذاق ان کا عامیانہ ہوا
جہاں رہتی تھی زہرہ جان کبھی
پیر صاحب کا آستانہ ہوا
اپنا بُندو بھی بن گیا لیڈر
جب الاٹ ایک کارخانہ ہوا
ہم تو بے دال کے رہے بودم
پا کے دولت وہ دولتانہ ہوا
میں لکھوں گا مجید یونہی غزل
تنگ اگر ان میں قافیہ نہ ہوا
مجید لاہوری
No comments:
Post a Comment