کسی بھی در کی سوالی نہیں رہی ہو گی
جھکی جو عشق کے در پر جبیں رہی ہو گی
وگرنہ ترکِ وفا سہل اس قدر تھا کہاں
کمی مجھی میں یقیناً کہیں رہی ہو گی
جو گورِ عقل میں کی دفن آرزو تم نے
تمہارے دل میں کبھی جا گزیں رہی ہو گی
وہ جن کے سر سے اٹھا آسمان کا سایہ
کب ان کے پاؤں کے نیچے زمیں رہی ہو گی
ابھی تو گریہ کناں ہیں کھنڈر کی دیواریں
گئے دنوں میں حویلی حسیں رہی ہو گی
تِرے جہاں سے نکل کر بھی ہم کہاں نکلے
ہماری یاد تِری ہم نشیں رہی ہو گی
تبھی تو اس نے تبسم کی بندگی کی ہے
رگِ گلو سے بھی بڑھ کر قریں رہی ہو گی
تبسم انوار
No comments:
Post a Comment