سُن حوا کی بیٹی
کوئی دن ایسا بھی آیا کیا؟
تم جی پائی ہو اپنے لیے
تم مر پائی ہو اپنے لیے
کبھی کھل کر ہنسنا سیکھا ہو
کسی خواب کو چھُو کر دیکھا ہو
جاگی ہو اپنی صبحوں میں
کبھی سوئی اپنی آنکھ سے تم
ڈالی ہو اپنی جھولی میں
کبھی چاہت اپنے حصے کی
کبھی تنہائی کے پیالے میں
کوئی لمحہ امرت جیسا بھی
کبھی روح کے صحرا میں گونجا
کوئی نام خدا سے پیارا بھی
کبھی زنگ آلود کواڑوں پر
کسی گیت نے کوئی دستک دی
کبھی گونگے، بہرے لمحوں میں
آسیب کوئی، ہمزاد کوئی
کبھی دل کا بوجھ اُتارا بھی
کوئی دن ایسا بھی آیا کیا؟
تم جی پائی ہو اپنے لیے
تم مر پائی ہو اپنے لیے
فرحت زاہد
No comments:
Post a Comment