شراب گوندھ کے آنکھوں میں کون لاتا ہے
کہاں ہے حور جسے تھامنا بھی آتا ہے
وہ ہارتی ہے محبت کھنکتے ساحل پر
تو سیپائی سمندر بھی ہار جاتا ہے
غزل بہانہ ہے یہ رف عمل بہانہ ہے
قلم ابھی بھی تِرا جسم گنگناتا ہے
کھڑی ہے چاروں طرف وہ جڑی ہے چاروں طرف
میں راستے کو، مجھے راستا گھماتا ہے
وہ گردوارے کی اینٹوں میں سانس لیتی ہے
ابھی بھی آنکھ کا کاجل اسے ستاتا ہے
میں پر کہانی کے چپکے سے کھول دیتا ہوں
تمہارے چہرے پہ جب جھوٹ مسکراتا ہے
حلب کی لڑکیاں چپ کا طواف کرتی ہیں
یہ دل نہیں ہے سمرقند کا احاطہ ہے
پلک چبھی تو نہیں، زندگی بجھی تو نہیں
میں چھُو رہا ہوں وہ لہجہ کھنکتا جاتا ہے
اور ایک لڑکی جسے اوڑھنی کا ہوش نہیں
اور ایک گھر جو محبت بہت جتاتا ہے
کواڑ کھول سمے آپ اس شبستان کے
یہ میر جعفر و صادق کو کیا بلاتا ہے
جنوں گزیدہ ہیں عامر، سکوں گزیدہ ہیں
ہمارا دشت سے دیوانگی کا ناتا ہے
وہ ہنستے ہنستے اچانک ہی رو پڑی عامر
بتا رہی تھی کہ ہنسنا اسے بھی آتا ہے
وہ اس جمود کو کیوں توڑتا نہیں عامر
وہ یہ عمود محبت پہ کیوں گراتا ہے
میں اس چراغ کی مہلت کا کیا کروں عامر
جو میری آنکھ میں آوارگی بچھاتا ہے
وہ ہو رہی ہے محبت سے جوگیا عامر
یہ چاند پوچھ کے جس کی گلی میں آتا ہے
عامر سہیل
No comments:
Post a Comment