Thursday 27 May 2021

تیرے آثار مٹانے میں بہت دیر لگی

 تیرے آثار مٹانے میں بہت دیر لگی

خود کو اس پار بلانے میں بہت دیر لگی

تُو میری ذات کا کھویا ہوا حصہ ہے کوئی

تُجھ کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی

زندگی جس کی ہر اک تال پہ کرتی ہے دھمال

دل کے وہ تار بجانے میں بہت دیر لگی

آئینہ مجھ کو یوں دیکھے کہ سمٹتی جاؤں

تیرے رنگوں کو بہانے میں بہت دیر لگی

جس کی تعبیر میں بے شکل نکھر جاتے ہیں

مجھ کو اس کوخواب کے پانے میں بہت دیر لگی

رات پھر ہجر کے تکئے پہ کئے گیسو دراز

رات پھر خود کو سلانے میں بہت دیر لگی

کتنے بکھرے ہوئے رنگوں میں ملی ہے فرقت

مجھ کو یہ رزق اٹھانے میں بہت دیر لگی

وصل کے خواب مِری نسل ہی اب دیکھے گی

ہجر میں راستہ پانے میں بہت دیر لگی


عظمیٰ نقوی

No comments:

Post a Comment