Tuesday, 25 May 2021

یہ کیا کہ جب قیام کیا تو سفر کھلا

 یہ کیا کہ جب قیام کیا تو سفر کُھلا

یہ کیا کہ بے گھری کُھلی مجھ پر نہ گھر کُھلا

دیکھا نہیں ہے دیکھنے والا جو پہلو تھا

منظر کی خیر ہے، تِرا زعمِ نظر کھلا

ہو رازِ ہست و نیست کہ رازِ کُن فکاں

کتنا کھلا ہو گا کسی پر، یہ اگر کھلا

جیسے ہی مجھ کو درد کی دولت ہوئی نصیب

ایسا غنی ہوا کہ معانی کا در کھلا

کتنا وفور خامشی کی گفتگو میں ہے

یہ راز مجھ پہ رات کے پچھلے پہر کھلا

تھوڑی سی دیر ہی سہی، بانٹی ہے روشنی

بجھنے کے بعد ہی سہی لیکن شرر کھلا


مسعود ساگر

No comments:

Post a Comment