ہم خاک بسر گردِ سفر ڈھونڈ رہے ہیں
اور لوگ سمجھتے ہیں کہ گھر ڈھونڈ رہے ہیں
دیوانوں کے مانند مِرے شہر کے سب لوگ
دستار کے قابل کوئی سر ڈھونڈ رہے ہیں
اب شام ہے تو شہر میں گاؤں کے پرندے
رہنے کے لیے کوئی شجر ڈھونڈ رہے ہیں
جو ذات کی گلیوں میں ہمیشہ سے ہے موجود
یہ لوگ اسے آج کدھر ڈھونڈ رہے ہیں
گلیوں میں بھٹکتے ہوئے مانوس سے چہرے
ڈھلتی ہوئی تہذیب کے گھر ڈھونڈ رہے ہیں
افسردہ سے چہروں پہ بڑی دیر سے ہم لوگ
اک کھویا ہوا دستِ ہنر ڈھونڈ رہے ہیں
وہ لوگ جو سورج کو بچانے نہیں نکلے
اب راکھ کی بستی میں شرر ڈھونڈ رہے ہیں
اسحاق وردگ
No comments:
Post a Comment