سہگل انگار ہو چکے ہوئے ہیں
ہم تو بے کار ہو چکے ہوئے ہیں
ختم ہونے کو ہے کہانی اب
سارے کردار ہو چکے ہوئے ہیں
تیرے دھوکے میں اب نہ آئیں گے
ہم سمجھدار ہو چکے ہوئے ہیں
وہ جو بکتے تھے کوڑیوں کے مول
اب خریدار ہو چکے ہوئے ہیں
یہ بھی گھنٹی ہے کوئی خطرے کی
دشت بازار ہو چکے ہوئے ہیں
ہو رہے ہیں وہ حادثے پھر سے
جو کئی بار ہو چکے ہوئے ہیں
آ کوئی اور کھیل کھیلیں اب
عشق اور پیار، ہو چکے ہوئے ہیں
جن کو چلّو میں ڈوب مرنا تھا
سب کے سب پار ہو چکے ہوئے ہیں
پھرتے رہتے ہیں سائے کمروں میں
گھر پُراسرار ہو چکے ہوئے ہیں
عزتیں بیچ بانٹ کی کئی لوگ
نیک اطوار ہو چکے ہوئے ہیں
اب اٹھائیں گے انتہائی قدم
لوگ بیزار ہو چکے ہوئے ہیں
کیا حسینوں کے منہ لگیں نامی
سب دکاندار ہو چکے ہوئے ہیں
رستم نامی
No comments:
Post a Comment