Friday, 28 May 2021

سہگل انگار ہو چکے ہوئے ہیں

 سہگل انگار ہو چکے ہوئے ہیں

ہم تو بے کار ہو چکے ہوئے ہیں

ختم ہونے کو ہے کہانی اب

سارے کردار ہو چکے ہوئے ہیں

تیرے دھوکے میں اب نہ آئیں گے

ہم سمجھدار ہو چکے ہوئے ہیں

وہ جو بکتے تھے کوڑیوں کے مول

اب خریدار ہو چکے ہوئے ہیں

یہ بھی گھنٹی ہے کوئی خطرے کی

دشت بازار ہو چکے ہوئے ہیں

ہو رہے ہیں وہ حادثے پھر سے

جو کئی بار ہو چکے ہوئے ہیں

آ کوئی اور کھیل کھیلیں اب

عشق اور پیار، ہو چکے ہوئے ہیں

جن کو چلّو میں ڈوب مرنا تھا

سب کے سب پار ہو چکے ہوئے ہیں

پھرتے رہتے ہیں سائے کمروں میں

گھر پُراسرار ہو چکے ہوئے ہیں

عزتیں بیچ بانٹ کی کئی لوگ

نیک اطوار ہو چکے ہوئے ہیں

اب اٹھائیں گے انتہائی قدم

لوگ بیزار ہو چکے ہوئے ہیں

کیا حسینوں کے منہ لگیں نامی

سب دکاندار ہو چکے ہوئے ہیں


رستم نامی

No comments:

Post a Comment