نزدیک سی شے سایۂ حائل سے بہت دور
منزل ہے شناسائی منزل سے بہت دور
دشوار سہی دور نہیں نکتہ رسی سے
لیکن ہے غلط رسمیٔ راحل سے بہت دور
یہ عین خودی عشق کے آثار میں ہے غم
پہلو سے ہے کم دور مقابل سے بہت دور
ہر سہل طلب سے تو ہے برگشتہ بدیہہ
ہر سائل کامل کے بھی حاصل سے بہت دور
قربانیاں کچھ رکھ دے گرو ایسی اٹھے گونج
گر پڑ کے جو پہنچے کوئی مشکل سے بہت دور
طاری اثر صدمہ کبھی نشۂ تندی
خود سنجیٔ حق سیرت زائل سے بہت دور
مشاطگیٔ شانہ بہت سلسلۂ جنباں
تہہ داریٔ صد زلف اوائل سے بہت دور
اک سلسلۂ موجۂ زنجیر شکن سا
گھستے ہوئے زنداں سے سلاسل سے بہت دور
غلطیدہ و پیچیدہ و آشفتہ سی اک موج
ساحل کو لیے زد میں ہے ساحل سے بہت دور
صد زاویہ محراب تغیر کم و افزوں
ادراک کے بازوئے حمائل سے بہت دور
یوں جیسے کہ ہر عصر رواں کے متوازی
موسم کی ہر اک شق کے مماثل سے بہت دور
پنہاں ابھی کم پوش بھی مبہم ابھی ہر بار
پایابیٔ مضراب رگ دل سے بہت دور
لاہوت کی اک لہر سوئے کرب دل خاک
لایا کوئی جذبہ کسی محفل سے بہت دور
حسن لطیفی
No comments:
Post a Comment