اس کی خواہش اسی طرح سے ہے
مجھے یہ لت اسی طرح سے ہے
ہاتھ آتا نہیں تھا جو کسی طور
اب میسر کئی طرح سے ہے
اس کی یلغار سے بچیں کیسے
حُسن وہ لشکری طرح سے ہے
دل دھڑک بھی چکا ہے، اس کے لیے
عقل ابھی سوچتی طرح سے ہے
ایک تصویر میرے بٹوے میں
ہُو بُہو آپ کی طرح سے ہے
جتنا ظاہر طرح سے ہے وہ حُسن
اس سے بڑھ کر خفی طرح سے ہے
اُس کو پانا ضروری ہو گیا تھا
وہ جو کھوئی ہوئی طرح سے ہے
شہر بھر وہ نہیں جو ہوتا تھا
چاند بھی اجنبی طرح سے ہے
بڑی مشکل سرکتی ہے فائل
عشق بھی دفتری طرح سے ہے
ضمیر طالب
No comments:
Post a Comment