Tuesday 25 May 2021

اس کی خواہش اسی طرح سے ہے

 اس کی خواہش اسی طرح سے ہے

مجھے یہ لت اسی طرح سے ہے

ہاتھ آتا نہیں تھا جو کسی طور

اب میسر کئی طرح سے ہے

اس کی یلغار سے بچیں کیسے

حُسن وہ لشکری طرح سے ہے

دل دھڑک بھی چکا ہے، اس کے لیے

عقل ابھی سوچتی طرح سے ہے

ایک تصویر میرے بٹوے میں

ہُو بُہو آپ کی طرح سے ہے

جتنا ظاہر طرح سے ہے وہ حُسن

اس سے بڑھ کر خفی طرح سے ہے

اُس کو پانا ضروری ہو گیا تھا

وہ جو کھوئی ہوئی طرح سے ہے

شہر بھر وہ نہیں جو ہوتا تھا

چاند بھی اجنبی طرح سے ہے

بڑی مشکل سرکتی ہے فائل

عشق بھی دفتری طرح سے ہے


ضمیر طالب

No comments:

Post a Comment