دل دیوانہ کہ بھولے ہی سے گھر رہتا ہے
ذکر کیوں اس کا مگر شام و سحر رہتا ہے
سینچتے رہیے اسے خون جگر سے اکثر
بے ثمر ورنہ تمنا کا شجر رہتا ہے
بستر شب پہ تڑپتے ہی گزر جائے مگر
دستِ امید میں دامان سحر رہتا ہے
دشتِ الفت میں کڑی دھوپ کے سناٹے ہیں
ابر خوش رنگ نہ سائے کا گزر رہتا ہے
یوں ہی پر تولتے رہنا ہے اسیروں کو
یہاں قفس شوق کا در بند اگر رہتا ہے
نواب حیدر نقوی راہی
No comments:
Post a Comment