اپنی وحشت کے نئے زخم چھپاؤں کیسے
میں تِری یاد کی دیوار گراؤں کیسے
شہر دل میں ہے وہی آج بھی چپ کا عالم
در و دیوار صداؤں سے سجاؤں کیسے
گنبدِ فکر میں آوازیں ہی آوازیں ہیں
میں ہر آواز کی تصویر بناؤں کیسے
خون دل دے کے ہر امید کو زندہ رکھا
اور اس گھر کے چراغوں کو جلاؤں کیسے
تُو نہ تھا تو لبوں پہ تھے فسانے کیا کیا
اب تجھی کو تِری روداد سناؤں کیسے
منزہ گوئندی
No comments:
Post a Comment