صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ سخن چیختا ہے
میں ہوں کشمیر، مِرا سارا بدن چیختا ہے
چیختا ہوں کہ مِری چیخ سنی جائے کہیں
میں اگر چیخ نہ پاؤں تو کفن چیختا ہے
ایسی جنت کہ رواں جس میں ہیں خوں کی نہریں
باغباں چیختے ہیں، سارا چمن چیختا ہے
امن برباد، فضا چھلنی، سکوں ہے غارت
ہر دہن چیختا ہے، سرو سمن چیختا ہے
پھر یہ دنیا مِرے کس کام کی دنیا عاصم
میں اگر چیختا ہوں، میرا وطن چیختا ہے
عاصم سلیم
No comments:
Post a Comment