خیر سے آپ جو جذبات میں آئے ہوئے ہیں
ہم بھی ایسے ہی تھے، اوقات میں آئے ہوئے ہیں
خرچ کیجے مگر، اصراف مناسب تو نہیں
مان لیتے ہیں کہ خیرات میں آئے ہوئے ہیں
آ کسی روز اسے تھوڑی نصیحت کر جا
وسوسے کچھ دلِ کم ذات میں آئے ہوئے ہیں
اتنا چالاک بھی خود کو نہ سمجھ عصرِ رواں
ہم تو دانستہ تِری بات میں آئے ہوئے ہیں
میں اکیلا ہوں کہاں دو کے مقابل ٹھہروں
وقت کے ہاتھ تِرے ہات میں آئے ہوئے ہیں
حبیب احمد
No comments:
Post a Comment