اشک بن کر وہ سر چشم حزیں رہتا ہے
جو تہہ دل سے نکلتا ہے یہیں رہتا ہے
بسترِ خاک پہ سوتے ہیں زمیں زاد تِرے
اور اک خواب سرِ عرشِ بریں رہتا ہے
اب ہوا کہتی ہے اس در پہ یہ دستک دے کر
اے مکاں! بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
کوئی میری طرح ناکامِ محبت بھی نہ ہو
دل پہ رہتا ہے نہ آنکھوں پہ یقیں رہتا ہے
ایک کھنڈر میں کہیں مدفون خزنہ ہے صدف
اور اک سانپ بھی سنتے ہیں وہیں رہتا ہے
صدف رباب
No comments:
Post a Comment