Tuesday, 25 May 2021

اشک بن کر وہ سر چشم حزیں رہتا ہے

 اشک بن کر وہ سر چشم حزیں رہتا ہے

جو تہہ دل سے نکلتا ہے یہیں رہتا ہے

بسترِ خاک پہ سوتے ہیں زمیں زاد تِرے

اور اک خواب سرِ عرشِ بریں رہتا ہے

اب ہوا کہتی ہے اس در پہ یہ دستک دے کر

اے مکاں! بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے

کوئی میری طرح ناکامِ محبت بھی نہ ہو

دل پہ رہتا ہے نہ آنکھوں پہ یقیں رہتا ہے

ایک کھنڈر میں کہیں مدفون خزنہ ہے صدف

اور اک سانپ بھی سنتے ہیں وہیں رہتا ہے


صدف رباب

No comments:

Post a Comment