بس ذرا اندر کے شک سے دُور ہے
عرش کب دل کی سڑک سے دور ہے
ساتھ رہ کر بھی ہیں اتنے دور ہم
یہ زمیں جتنی فلک سے دور ہے
وہ گرانی ہے کہ اب امید بھی
کوششِ نان و نمک سے دور ہے
داغِ دل ہے اب جو مُرجھایا ہوا
اس کے نشتر کی کسک سے دور ہے
کھا گئی کس کی نظر حُسن و جمال
وہ بدن کیونکر چمک سے دور ہے
ہے مصیبت میں یہ دل جب سے تِرے
درد کی تازہ کمک سے دور ہے
زندگی ہے، موت سے اتنی بعید
جوں پلک نامی جھپک سے دور ہے
رستم نامی
No comments:
Post a Comment