تیسری آنکھ کا نوحہ
پہلے درجے کی آنکھ
حسنِ انتظام کے کارخانے میں
چیزوں کی شکست و ریخت دیکھتے ہوئے
پتھرا جاتی ہے
روتی نہیں
دوسرے درجے کی آنکھ
غلامی کی نحوست سے آگاہ
رواں دواں لمحات کے غبارمیں
ریشم بُنتے بُنتے
کولہو کے بیل سے پوچھتی ہے
کیا ہمارا سفر، صفر ہے؟
تیسرے درجے کی آنکھ
سماجی ماحول کے جبری تسلط میں
تاریک لمحوں کے گم شدہ حصار میں
کفِ افسوس ملتی ہے
بے خبری کی خاک چاٹتی ہے
امجد بابر
No comments:
Post a Comment