Monday, 25 October 2021

در سے مایوس ترے طالب اکرام چلے

در سے مایوس تِرے طالبِ اکرام چلے

کیسی امید لیے آئے تھے، ناکام چلے

او مِری بزمِ تمنا کے سجانے والے

لطف کر لطف کہ دنیا میں تِرا نام چلے

چھین لے چرخِ ستمگار سے اندازِ خرام

کچھ اگر زور تِرا گردشِ ایام چلے

ایک وہ ہیں کہ تِرا لطف و کرم ہے جن پر

ایک ہم ہیں کہ تِری بزم سے ناکام چلے

عزم راسخ نے بھی گھبرا کے قدم توڑ دئیے

کوچۂ یار میں ہم یوں سحر و شام چلے

مست آنکھوں کا اگر ایک اشارہ ہو جائے

وجد میں آئے سبُو اور کہیں جام چلے

نیند بیمارِ محبت کو کہیں آتی ہے

صبح تا شام اگر بادِ سبک گام چلے

رہروِ عشق ہیں منزل کی ہمیں کیا امید

کیا چلے خاک اگر بیٹھ کے دو گام چلے

کون جائے ہدفِِ تیرِ نظر ہونے کو

صبر سے کام اگر اے دلِ ناکام چلے

حیف صد حیف تھی امیدِ رفاقت جن سے

آج وہ بھی مِرے سر تھوپ کے الزام چلے

ایک شاطر کے نہ ہونے سے بگڑتا کیا ہے

تیری محفل رہے آباد، تِرا نام چلے


شاطر حکیمی

No comments:

Post a Comment