زیست میں غم ہیں ہمسفر پھر بھی
تا اجل کرنا ہے بسر پھر بھی
ٹُوٹی پُھوٹی ہوں چاہے دیواریں
اپنا گھر تو ہے اپنا گھر پھر بھی
چاہے انکار ہم کریں سچ کا
ہووے ہے ذہن پر اثر پھر بھی
دل مچلتا ہے ان سے ملنے کو
ہم چُراتے رہے نظر پھر بھی
ہے یقیں تم ہمیں نہ بُھولو گے
اک زمانہ گیا گُزر پھر بھی
ہیں یہ الفاظ دل لُبھانے کے
کاش شاید یوں ہی مگر پھر بھی
ایلزبتھ کورین مونا
No comments:
Post a Comment