ہم اپنے واسطے نیا جہان دیکھتے رہے
زمین چھوڑ کر ہم آسمان دیکھتے رہے
ہمارے ساتھ اجنبی تھا اک سفر میں دوستا
کہ جب چلا گیا وہ ہم نشان دیکھتے رہے
یہ علم تھا کہ جھوٹ ہے مگر وہ شخص کیا کہیں
یوں بولتا رہا کہ ہم رسان دیکھتے رہے
بیداد گر تھی آہوئے چشم کیا کہیں وہ کس طرح
کہ تیر تھا جگر میں، ہم کمان دیکھتے رہے
جتا رہی تھی ساتھ ہوں مگر وہ قیس تھی نہیں
بدل گئی نظر کا ہم دھیان دیکھتے رہے
جمیل احمد قیس
No comments:
Post a Comment