میں تنگ ہوں نہ میرا خریدار تنگ ہے
دل کے معاملات میں بازار تنگ ہے
اس کی ہنسی سماتی نہیں ہے فریم میں
تصویر کے حساب سے دیوار تنگ ہے
یہ دل کسی کی ماننے والا نہیں میاں
اس بدلحاظ شخص سے ہر یار تنگ ہے
جو زخم گن رہے ہیں یہاں عافیت میں ہیں
جو گن رہا ہے درہم و دینار تنگ ہے
کب تک میں جھوٹ بولوں، اداکاریاں کروں
خوش ہوں کہ مجھ سے میرا طرفدار تنگ ہے
کاشف مجید
No comments:
Post a Comment