Friday 22 October 2021

میں تنگ ہوں نہ میرا خریدار تنگ ہے

 میں تنگ ہوں نہ میرا خریدار تنگ ہے

دل کے معاملات میں بازار تنگ ہے

اس کی ہنسی سماتی نہیں ہے فریم میں

تصویر کے حساب سے دیوار تنگ ہے

یہ دل کسی کی ماننے والا نہیں میاں

اس بدلحاظ شخص سے ہر یار تنگ ہے

جو زخم گن رہے ہیں یہاں عافیت میں ہیں

جو گن رہا ہے درہم و دینار تنگ ہے

کب تک میں جھوٹ بولوں، اداکاریاں کروں

خوش ہوں کہ مجھ سے میرا طرفدار تنگ ہے


کاشف مجید

No comments:

Post a Comment