Friday, 22 October 2021

اب تو بن سانس بھی جینے کی سزا ملتی ہے

 اب تو بِن سانس بھی جینے کی سزا ملتی ہے

کیا یہ کچھ کم ہے کہ کھانے کو ہوا ملتی ہے

دوزخی جس کو قیامت میں بھی کم دیکھیں گے

شہرِ بے داد میں وہ حد بھی روا ملتی ہے

تن یہ زخمی کہ نگاہوں کو بھی تِل دھرنے کو

رونق آباد میں مشکل ہی سے جا ملتی ہے

تم تو اپنے ہی نہ تھے ہم نے خدا بھی کھویا

موت مانگیں بھی تو اب زیست نما ملتی ہے

مانگی ہر دن شبِ فرقت نے وداعی رخصت

اور ہر رات ہی واپس مجھے آ ملتی ہے

جو ہو محروم اسے عرش سے ٹکرا کر بھی

کچھ جو ملتا ہے تو اس ہی کی ندا ملتی ہے

اور کیا من کو اب آشائوں کے جگنو دیتے

بس کہ ہر رات کو تاروں کی سبھا ملتی ہے

حشر کی بھیڑ ہے راہوں میں نہ جانے پھر کیوں

رہ نوردوں کو ہر ایک سمت خلا ملتی ہے


اصغر علی شاہ

No comments:

Post a Comment