Saturday, 23 October 2021

سڑک مسافت کی عجلتوں میں

 سڑک


سڑک مسافت کی عجلتوں میں

گھرے ہوئے سب مسافروں کو

بغور فرصت سے دیکھتی ہے

کسی کے چہرے پہ سرخ وحشت چمک رہی ہے

کسی کے چہرے سے زرد حیرت چھلک رہی ہے

کسی کی آنکھیں ہری بھری ہیں

کبیر حد سے ابھر رہا ہے

صغیر قد سے گزر رہا ہے

کسی کا ٹائر کسی کے پہیے کو کھا رہا ہے

کسی کا جوتا کسی کی چپل چبا رہا ہے

کسی کے پیروں میں آرہا ہے کسی کا بچہ

کسی کا بچہ کسی کے شانے پہ جارہا ہے

کوئی ٹھکانے پہ کوئی کھانے پہ جارہا ہے

حبیب دستِ رقیب تھامے

غریب خانے پہ جارہا ہے

امیر پنجرہ بنا رہا ہے

غلام کرتب دکھا رہا ہے

اوراپنے بیٹے کے ساتھ چھت پر

امین کنڈا لگا رہا ہے

نظام تانگا چلا رہا ہے

کسی کلائی پہ جگمگاتی ہوئی گھڑی ہے

مگر ابھی وہ رکی ہوئی ہے

کسی کے چہرے پہ

 بارہ بجنے میں پانچ سیکنڈ رہ گئے ہیں

کسی کی ہاتھی نما پراڈو

سڑک سے ایسے گزر رہی ہے

سوائے اس کے کہیں بھی جیسے کوئی نہیں ہو

کسی کی مونچھیں جھکی ہوئی ہیں

کسی کی بانچھیں کھلی ہوئی ہیں

کسی کی ٹیکسی کسی کی فوکسی ملی ہوئی ہیں

کسی کے لب اور کسی کی آنکھیں سلی ہوئی ہیں

کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں

کسی کی پگڑی چمک رہی ہے

کسی کی رنگت کسی کی ٹوپی اڑی ہوئی ہے

شریف نظریں اٹھا اٹھا کر

کمان جسموں پہ اپنی وحشت کے تیر کب سے چلا رہا ہے

نظیر نظریں چرا رہا ہے

نفیس اپنے کلف کی شکنوں کو رو رہا ہے

حکیم اپنے مطب کے شیشوں کو دھو رہا ہے

کسی کی آنکھوں کے دھندلے شیشوں میں 

اس کے ماضی کی جھلکیاں ہیں

کسی کی آنکھوں میں آنے والے 

حسین لمحوں کی مستیاں ہیں

کسی کی آنکھوں میں رت جگوں کی 

کچھ ارغوانی سی ڈوریاں ہیں

کسی کے کاندھے پہ 

اس کے خوابوں کی بوریاں ہیں

کباڑخانے پہ باسی ٹکڑوں کی 

اور کتابوں کی بوریاں ہیں

بزرگ برگد کے نیچے بوڑھا کھڑا ہوا ہے

اور اس کے ہاتھوں میں ٹیپ لپٹی ہوئی چھڑی ہے

پولیس کی گاڑی پکٹ لگا کر

سڑک پہ ترچھی کھڑی ہوئی ہے

اور ایک مزدورر اپنا دامن اٹھائے 

بے بس کھڑا ہوا ہے

اور اک سپاہی کہ اس کے نیفے میں 

انگلیوں کو گھما رہا ہے

وہیں پہ شاہد سیاہ چشمہ لگا کے 

خود کو چھپا رہا ہے

نیوز چینل کی چھوٹی گاڑی 

بڑی خبر کی تلاش میں ہے

دو سبزی والے بھی اپنی پھیری لگا رہے ہیں

تو پھول والے کے سر پہ پھولوں کی ٹوکری ہے

کسی کی آنکھوں میں نوکری ہے

کسی کی آنکھوں میں چھوکری ہے

وقار سر کو جھکا رہا ہے

فراز کھائی میں جارہا ہے

تو گیلی سگریٹ کے کش لگا کر

نواب رکشہ چلا رہا ہے

سلیم کنی گھما رہا ہے

وکیل وردی میں جارہا ہے

ضمیر بغلیں بجا رہا ہے

اور ایک واعظ بتا رہا ہے

خدا کو ناراض کرنے والے جہنمی ہیں

خدا کو راضی کرو خدارا

خدا کو راضی کرو خدارا

اور اس کے آگے 

نصیر، اکمل، کمال، شادا، غلام سارے

نظر جھکائے کھڑے ہوئے ہیں

کہ چشمِ بینا اگر کہیں ہے

تو سمجھو پاتال تک گڑی ہے

کسی کو اے سی خریدنا ہے

کسی کو پی سی خریدنا ہے

کسی کی بس اور کسی کی بی سی نکل رہی ہے

عقیلہ خالا کے دونوں ہاتھوں میں 

آٹھ تھیلے لٹک رہے ہیں

اور آتے جاتے سبھی مسافر

انہیں مسلسل کھٹک رہے ہیں

ضیاء اندھیرے میں جا رہا ہے

گلاب کچرا جلا رہا ہے

عظیم مکھی اڑا رہا ہے

کلیم گٹکا چبا رہا ہے

تو گھنٹہ پیکج پہ جانے کب سے

فہیم گپیں لڑا رہا ہے

سبق مساوات کا سکھانے

وزیر گاڑی میں جارہا ہے

ثناء ندا کو نئے لطیفے سنا رہی ہے

حنا ہتھیلی کو تکتے تکتے 

پرانے رستے سے آ رہی ہے

اور اپنی بھاوج کا ہاتھ تھامے

زبیدہ چیک اپ کو جارہی ہے

وہ اپنی نظریں کبھی ادھر کو 

کبھی ادھر کو گھما رہی ہے

مگر کوئی شے اسے مسلسل بلا رہی رہی ہے

عجیب عجلت عجیب وحشت 

عجیب غفلت کا ماجرا ہے

کہوں میں کس سے مرے خدایا 

یہ کیسی خلقت کا ماجرا ہے

کہ اپنی مستی میں مست ہوکر

یہ سب مسافر گزر رہے

نئے مسافر ابھر رہے ہیں

سڑک جہاں تھی وہیں کھڑی ہے

مگر حقیقت بہت بڑی ہے

سڑک پہ بلی مری پڑی ہے


عمران شمشاد

No comments:

Post a Comment